Monday, February 19, 2018

منشی جی
ساجد احمد خان
کسی ریاست میں ایک منشی جی رہتے تھے۔ انہوں نے اردو اور فارسی کی اعلی تعلیم حاصل کر رکھی تھی اور مشکل سے مشکل کتابوں کو بڑی آسانی سے سمجھا دیتے تھے، مگر شروع ہی سے انہوں نے خوشخطی کی طرف ذرا بھی دھیان نہیں دیا تھا۔ اسی لیے ان کی تحریر ٹیڑھی اور ترچھی ہوتی تھی۔ کبھی کبھی تو اپنا لکھا ہوا خود بھی نہیں پڑھ پاتے تھے۔ ویسے بھی انہیں لکھنے کی ضرورت بہت
ہی کم ہوتی تھی۔ وہ ریاست کے ایک دور دراز مقام پر رہتے تھے۔ ان کی تھوڑی سی زمین تھی جس پر کاشت کاری کرواتے تھے۔ اس کام کے لیے انہوں نے ملازم رکھے ہوئے تھے۔
ایک دفعہ انہوں نے سنا کہ ریاست کے نواب صاحب کو اپنے جدّ امجد کی لکھی ہوئی ایک کتاب ملی ہے جو فارسی زبان میں ہے۔ کوئی بھی شخص اسے پوری طرح نہیں پڑھ سکا۔ اس کے الفاظ بڑے ہی مشکل تھے جن کے معنی کسی کو معلوم نہیں۔ نواب صاحب نے منادی کرائی ہے کہ جو شخص اس کتاب کو پڑھ کر اس کا مطلب بتائے گا اسے پانچ سو رپے انعام دیا جائے گا۔
منشی جی نے سوچا مجھے بھی قسمت آزمانی چاہیے۔ چنانچہ وہ نواب صاحب کی حویلی پہنچے اور اطلاع کروائی کہ بڑی دور سے ایک منشی آپ کی کتاب پڑھنے آیا ہے۔ نواب نے فورا بلوایا۔ منشی جی کو دیہاتی کپڑوں میں دیکھ کر لوگ کہنے لگے، "یہ آدمی تو اپنی شکل اور لباس سے جاہل، گنوار معلوم ہوتا ہے۔ یہ کتاب کیسے پڑھے گا!"
نواب صاحب نے کہا، " کبھی کبھی گڈریوں میں بھی لعل چھپے ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ کتاب پڑھ لے۔"
انہوں نے کتاب منگوا کر منشی جی کو دے دی۔ منشی جی نے پہلا صفحہ پڑھ کر کہا، "بہت ہی پرانی کتاب ہے۔ اگر آپ کسی کو بلوا دیں تو میں کتاب کا ترجمہ پڑھتا جاؤں گا وہ لکھتا جائے گا۔"
نواب صاحب نے بلوا دیا۔ منشی جی نے اس چھوٹی سی کتاب کا ترجمہ تین چار گھنٹے میں کر دیا۔ نواب صاحب نے خود پڑھا اور پڑھوا کر سنا بھی۔ اب تو نواب صاحب بہت خوش ہوئے اور منشی جی کو انعام دے کر رخصت کیا۔
بہت دن گزر گئے۔ ایک دفعہ نواب صاحب شکار سے واپس آ رہے تھے۔ ان کا گھوڑا بہت تیز دوڑ رہا تھا۔ ان کے سب ساتھی پیچھے رہ گئے۔ راستے میں نواب صاحب کی نظر منشی جی پر پڑی۔ انہوں نے منشی جی سے پوچھا، "کہاں جا رہے ہو؟"
منشی جی نے کہا، "میری لڑکی کی شادی ہے۔ رپے کی کمی ہے۔ حضور کے پاس جا رہا تھا کہ کچھ مسئلہ حل ہو جائے۔"
نواب نے جیب سے اپنی ڈائری نکالی اور ایک ورق پھاڑ کر اس کے نیچے دستخط کر دیے اور کہا، "اس پر ہماری طرف سے اپنے علاقے کے تحصیل دار کے نام حکم لکھ دو کہ پانچ سو روپے دے دیے جائیں۔"
منشی جی سیدھے تحصیل دار کے پاس گئے۔ تحصیل دار نے ورق دیکھ کر کہا، "میں تحریر بالکل نہیں پڑھ سکتا۔ پتا نہیں اس میں کیا لکھا ہے۔ رپے کیسے دے دوں!"
اب تو منشی جی بہت پریشان ہوئے کہ یہ میری بدخطی کا نتیجہ ہے۔ وجہ یہ تھی کہ نواب صاحب نے کاغذ پر صرف دستخط کیے تھے۔ ان کا حکم منشی جی نے خود ان کی ڈائری کے ورق پر لکھا تھا اور آپ کو معلوم ہی ہے کہ منشی جی کا خط بہت خراب تھا۔
٭٭٭
ماہ نامہ ہمدرد نونہال، اکتوبر ١٩٩١ء سے لیا گیا۔

1 comment:

Popular Posts

Blog Archive