Monday, February 19, 2018

عقل مند فقیر
حافظ محمد بن مالک
ایک مرتبہ ایک فقیر کسی میدان سے اکیلا گزر رہا تھا۔ اسے دو سوداگر نظر آئے ۔ اس نے سوداگروں سے پوچھا، "بھائیو! کیا تمہارا اونٹ کھو گیا ہے؟"
سوداگر خوش ہوئے اور بولے، "تم نے دیکھا ہے کیا؟"
فقیر نے کہا، "کانا تو نہیں تھا اور دائیں پیر سے لنگڑا تو نہیں تھا؟"
ان سوداگروں کو یقین ہوگیا کہ اس نے اونٹ دیکھا ہے۔ لہٰذا اسی سے معلوم کیا جائے۔ وہ کہنے لگے، "بھائی یہ حقیقت ہے کہ وہ کانا اور لنگڑا تھا۔ مگر وہ گیا کہاں؟"
فقیر نے اسی لہجے میں کہا، "آگے والا دانت ٹوٹا ہوا تو نہیں تھا؟"
سوداگر جلدی سے بولے، "یہی جناب یہی، الله کے واسطے پتا بتا دو۔ کہاں دیکھا تھا؟"
فقیر نے ایک مرتبہ پھر اسی انداز میں کہا، "ایک طرف شہد کے ڈبے اور دوسری طرف گندم کی بوری لدی ہوئی تھی۔"
اب دونوں کو پکّا یقین ہوگیا۔ کہنے لگے، "فقیر بابا! اب جلدی سے ہمیں چل کر بتائیے کہ اونٹ کہاں ہے؟"
فقیر نے کہا، "بھائی! اگر سچ پوچھو تو نہ میں نے تمھارے اونٹ کو دیکھا ہے اور نہ اس کے بارے میں سنا ہے۔ میں ابھی تم دونوں سے سن رہا ہوں کہ تمہارا اونٹ کھو گیا ہے۔"
سوداگر حیران ہوگئے اور سمجھے کہ وہ ہم کو دھوکہ دے رہا ہے۔ دھمکی دے کر کہنے لگے، "اسی اونٹ پر دوسرے سامان کے ساتھ ہمارے جواہرات بھی رکھے ہوئے ہیں۔ اگر نہیں بتاؤگے تو تمہیں قید کرا دیں گے۔"
فقیر نے جواب دیا، "بھئی مجھے دھمکی نہ دو۔ میں نے تمھارے اونٹ نہیں دیکھا۔"
اس پر سوداگر فقیر کو پکڑ کر قاضی کے پاس لے گئے۔ قاضی کو بھی فقیر نے وہی بات بتائی۔
"جب تم نے اونٹ دیکھا ہی نہیں تو اس کے بارے میں اتنی صحیح باتیں کیوں کر بتا رہے ہو؟" قاضی نے تعجب سے پوچھا۔
فقیر نے مسکرا کر کہا، "قاضی صاحب! آپ کو پریشان دیکھ کر ہنسی آرہی ہے۔میری بات سن کر آپ ضرور شک میں مبتلا ہوں گے، لیکن میں اب آپ کو حقیقت بتاتا ہوں۔ جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو آنکھیں کھلی رکھتا ہوں۔ آج صبح میں ایک جگہ سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ ایک اونٹ کے پیروں کے نشان تو موجود ہیں، لیکن کسی آدمی کے پیروں کے نشان نہیں ہیں جس سے میں سمجھا کہ یہ اونٹ رسی تڑا کر بھاگا ہے۔ پھر دیکھا تو ایک پاؤں کے نشان تھے ہی نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ لنگڑا ہے۔ پھر کیا دیکھتا ہوں کہ راستے کے ایک طرف گھاس چرنے کے نشان ہیں جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کانا ہے۔ دانت کے ٹوٹا ہونے کا علم اس طرح ہوا کہ اس نے جس پودے کو کھانے کی کوشش کی ، اس کے کچھ پتے باقی رہ گئے تھے اور سامان کا پتا اس طرح چلا کہ ایک طرف چیونٹیوں کی آمدورفت تھی جس سے معلوم ہوا کہ ایک طرف اناج ہے اور دوسری طرف شہد کی مکھیاں تھیں جس سے معلوم ہوا کہ وہاں شہد ضرور ہوگا۔"
قاضی یہ بات سن کے دنگ رہ گیا اور فقیر کو شاباشی دی۔ سوداگر بھی فقیر کے بتائے ہوئے راستے پر گئے اور اپنا کھویا ہوا اونٹ پا لیا۔
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، فروری ۱۹۸۹ء سے لیا گیا۔

Related Posts:

  • ماشا کی کہانی ماشا کی کہانیساجدہ رحمٰن ماشا ایک چھوٹی سی لڑکی تھی۔ وہ اپنے نانا اور نانی کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کا گھر جنگل کے قریب تھا۔ایک دن ماشا کے سب دوست جنگل میں بیر توڑنے جا رہے تھے۔ ماشا کا بھی جی چاہا کہ ان کے ساتھ جائے۔ اس کے نا… Read More
  • مغرور شہزادی مغرور شہزادی شمشاد خان بہت عرصے پہلے کی بات ہے۔ ایک بادشاہ تھا۔ اس کی ایک خوبصورت اور اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی خوبصورتی اور دولت کی وجہ سے وہ بہت مغرور اور گستاخ ہوگئی تھی۔ جب بھی کہیں سے اس کے لیے شادی کا پیغام آتا وہ اسے ٹھ… Read More
  • اصلی جادو اصلی جادو معراج چینی جادوگر ہوانگ ہو اپنے کمالات دکھانے کے لیے آ رہا تھا۔ اسکول کے سب بچے بہت بےچینی سے اس کے آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔ آخر وہ دن آ پہنچا جس کا سب بچوں کو بڑی شدت سے انتظار تھا۔ مس عابدہ نے کہا، "میں کل … Read More
  • خوشی کی پری خوشی کی پری نصرت شاہین تارا چارپائی پر لیٹی آسمان کی طرف تکے جا رہی تھی۔ جگ مگ کرتے ستارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ تارا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ آج اس کی تائی ماں نے پلیٹ ٹوٹ جانے پر اسے روئی کی طرح دھنک … Read More
  • گروی آنکھ گروی آنکھ شکیل فاروقی ایک تھا شہر۔ صاف ستھرا، چھوٹا، مگر خوبصورت۔ اس میں رہتا تھا ہیروں کا سوداگر۔ اس کے تھے دو دوست۔ بہت گہرے، بہت پکّے۔ ان میں ایک دوست تھا لنگڑا۔ وہ ریشمی کپڑے کی تجارت کے لیے ملک در ملک جایا کرتا تھا۔ د… Read More

0 comments:

Post a Comment

Popular Posts

Blog Archive