Monday, February 19, 2018

مچھلی سب کو ملی
میم ندیم
مچھیرے نے الله کا نام لے کر ندی میں جال ڈالا۔ دن بھر کے انتظار کے بعد دو بڑی سی مچھلیاں ہاتھ لگیں۔ وہ اپنا جال سمیٹ رہا تھا کہ ایک چیل تیزی سے جھپٹی اور اپنے پنجوں میں ایک مچھلی دبا کر اڑ گئی۔ مچھیرے کو بہت افسوس ہوا، مگر پھر وہ کچھ سوچ کر مسکرایا۔ اس کا بیٹا چیل اور اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔ مچھیرے نے کہا، "بیٹا الله کا شکر ادا کرو کہ ایک مچھلی بچ گئی۔ دوسری
مچھلی ہماری قسمت میں نہیں تھی۔ جو چیز جتنی قسمت میں ہوتی ہے اتنی ہی ملتی ہے۔ قسمت کو کوسنا ناشکروں کا کام ہے۔"
وہ چیل اڑتی ہوئی ایک پہاڑی کی طرف جا پہنچی۔ ایک دوسری چیل نے اس سے مچھلی چھیننے کے لیے اس پر حملہ کر دیا۔ دونوں چیلوں میں چھینا جھپٹی ہونے لگی اور مچھلی چیل کے پنجوں سے پھسل کر پہاڑی پر رہنے والے ایک درویش کی جھونپڑی کے سامنے گر پڑی۔ درویش نے مچھلی کو اٹھایا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، "اے الله! آپ نے میری دعا قبول کر لی۔ میں نے مچھلی ہی تو مانگی تھی۔ مگر آپ کو تو معلوم ہے کہ میرے پاس مچھلی پکانے کے لیے نہ تو تیل ہے اور نہ مصالحہ۔ مجھے تو پکی پکائی مچھلی چاہیے۔ میں یہ مچھلی نہیں کھا سکتا۔ اسے واپس منگوا لیجیے اور مجھے پکی ہوئی مچھلی بھجوائیے۔"
یہ کہہ کر درویش جھونپڑی میں چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد جب وہ دوبارہ باہر آیا تو مچھلی وہاں نہیں تھی۔ اسے ایک چیل نے اٹھا لیا اور وہ دوسری چیلوں سے بچتی ہوئی، جو اس سے مچھلی چھیننے کے لیے اس کا پیچھا کر رہی تھیں، پہاڑی کے نیچے کی طرف اڑ رہی تھی لیکن دو چیلوں نے اس پر حملہ کر دیا اور اس سے مچھلی چھیننے کی کوشش کی۔ اس لڑائی میں چیل کے پنجوں سے وہ مچھلی نکل کر ایک غریب کسان کے آنگن میں جا گری۔ کسان کی بیوی نے دوڑ کر وہ مچھلی اٹھا لی اور کسان سے بولی، "میں تم سے کتنے دنوں سے کہہ رہی تھی کہ میرا دل مچھلی کھانے کو چاہ رہا ہے۔ تم نے تو لا کر نہ دی، الله میاں نے آج مجھے بھیج دی۔ میں نے منّت مانی تھی کہ جب بھی مچھلی پکاؤں گی پہاڑی والے بابا کو بھیجوں گی۔ اب میں مصالحہ پیس کر مچھلی پکائے دیتی ہوں۔ تم بابا کو جا کر دے آؤ اور کہنا کہ بابا دعا کریں کہ ہمارا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔"
کسان کی بیوی نے مچھلی پکائی کہ اتنے میں کسان کا دوست مچھیرا وہاں آ گیا۔ کسان نے اپنے دوست سے کہا، "تم اچھے وقت پر آ گئے۔ آج مچھلی پکی ہے۔ کھانا کھا کر جانا۔"
مچھیرے نے تعجب سے پوچھا، "مگر تم کو مچھلی کہاں سے مل گئی؟ وہ تو میں ہی تم کو لا کر دیتا ہوں۔"
"بس یوں سمجھ لو الله میاں نے آسمان سے ٹپکادی ہمارے آنگن میں۔" کسان نے سارا ماجرا سنایا کہ کس طرح چیل وہ مچھلی وہاں گرا گئی۔ مچھیرا یہ سن کر مسکرایا مگر کچھ بولا نہیں۔
جب کسان پہاڑی بابا کو مچھلی دینے گیا تو مچھیرا بھی اس کے ساتھ گیا۔ کسان نے پکی ہوئی مچھلی کا پیالہ پیش کیا اور دعا کی درخواست کی۔
درویش نے ان دونوں کو دیکھا اور پوچھا، "مچھلی کہاں سے آئی؟"
کسان نے کہا، "آسمان سے گری، بیوی نے منّت مانی تھی کہ اگر اسے مچھلی ملی تو وہ پہاڑی والے بابا کو پہلے کھلائے گی اور دعا کرائے گی کہ اس کا ہونے والا بچہ زندہ اور سلامت رہے۔"
اب درویش مچھیرے سے بولا، "تم کون ہو؟"
مچھیرے نے کہا، "میں مچھیرا ہوں۔ آج صبح دو مچھلیاں پکڑی تھیں۔ ایک میرے کنبے کی قسمت کی تھی اور دوسری چیل اٹھا کر لے گئی۔"
درویش سارا ماجرا سن کر بولا، "ہم سب نے مچھلی کھانے کی خواہش کی۔ الله نے ایک ہی وقت میں ہم سب کی خواہش جس انداز میں پوری کی، یہ اس کی ذات کا ادنی سا کرشمہ ہے۔ ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔"
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، جولائی ١٩٩١ سے لیا گیا۔

Related Posts:

  • دو چوہے دو چوہے ڈاکٹر جمیل جالبی دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھا… Read More
  • کھومبے کی شکست کھومبے کی شکستابرار محسن جھرّیوں بھرے چہرے والا بوڑھا جادوگر قبیلے والوں سے بار بار یہی کہتا تھا، "خبردار! جو تم میں سے کسی نے جھیل کے اس پار قدم رکھا! اگر تم میں سے کوئی ادھر گیا تو وہ خود بھی دردناک موت مرے گا اور قبیلے … Read More
  • سونے کی تین ڈلیاں سونے کی تین ڈلیاں مسعود احمد برکاتی دو بھائی تھے۔ ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔ امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔ دونوں میں بنتی نہیں تھی۔ بات یہ تھی کہ امیروف سلیموف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سلیموف کو ضرورت پڑی… Read More
  • موت کی وادی موت کی وادی ابرار محسن تاروں بھرے آسمان سے چودھویں کا گول مٹول چاند اپنی چاندنی زمین پر برسا رہا تھا۔ جنگل کی طرف سے آنے والی ہوا کے جھونکھوں میں جنگلی پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ بڑی ہی سہانی اور خوبصورت رات تھی۔ آج کی … Read More
  • بھول بھلیّوں کی سیر بھول بھلیّوں کی سیرمعراج عادل مجھے لندن کے قابل دید مقامات کی سیر کرا چکا تھا۔ ہم ہیمپٹن کورٹ کی بھول بھلیّوں کے پاس سے کئی مرتبہ گزرے لیکن ہم نے اسے دیکھنا فضول ہی سمجھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کی داخلہ فیس بہت کم تھی یع… Read More

0 comments:

Post a Comment

Popular Posts

Blog Archive