Monday, February 19, 2018

دو چوہے
ڈاکٹر جمیل جالبی
دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔
ایک دن جو ملاقات ہوئی تو گاؤں کے چوہے نے اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، "بھائی! ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست ہیں۔ کسی دن میرے گھر تو آئیے اور ساتھ کھانا کھائیے۔"
شہری چوہے نے اس کی دعوت قبول کر لی اور مقررہ دن وہاں پہنچ گیا۔ گاؤں کا چوہا بہت عزت سے پیش آیا اور اپنے دوست کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ کھانے میں مٹر، گوشت کے ٹکڑے، آٹا اور پنیر اور میٹھے میں پکے ہوئے سیب کے تازہ ٹکڑے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ شہری چوہا کھاتا رہا اور وہ خود اس کے پاس بیٹھا میٹھی میٹھی باتیں کرتا رہا۔ اس اندیشے سے کہ کہیں مہمان کو کھانا کم نہ پڑ جائے، وہ خود گیہوں کی بالی منہ میں لے کر آہستہ آہستہ چباتا رہا۔
جب شہری چوہا کھانا کھا چکا تو اس نے کہا، "ارے یار جانی! اگر اجازت ہو تو میں کچھ کہوں؟"
گاؤں کے چوہے نے کہا، "کہو بھائی! ایسی کیا بات ہے؟"
شہری چوہے نے کہا، "تم ایسے خراب اور گندے بل میں کیوں رہتے ہو؟ اس جگہ میں نہ صفائی ہے اور نہ رونق۔ چاروں طرف پہاڑ، ندی اور نالے ہیں۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا۔ تم کیوں نہ شہر میں چل کر رہو۔ وہاں بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ سرکار دربار ہیں۔ صاف ستھری روشن سڑکیں ہیں۔ کھانے کے لیے طرح طرح کی چیزیں ہیں۔ آخر یہ دو دن کی زندگی ہے۔ جو وقت ہنسی خوشی اور آرام سے گزر جائے وہ غنیمت ہے۔ بس اب تم میرے ساتھ چلو۔ دونو ں پاس رہیں گے۔ باقی زندگی آرام سے گزرے گی۔"
گاؤں کے چوہے کو اپنے دوست کی باتیں اچھی لگیں اور وہ شہر چلنے پر راضی ہو گیا۔ شام کے وقت چل کر دونوں دوست آدھی رات کے قریب شہر کی اس حویلی میں جا پہنچے جہاں شہری چوہے کا بل تھا۔ حویلی میں ایک ہی دن پہلے بڑی دعوت ہوئی تھی جس میں بڑے بڑے افسر، تاجر، زمیندار، وڈیرے اور وزیر شریک ہوئے تھے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حویلی کے نوکروں نے اچھے اچھے کھانے کھڑکیوں کے پیچھے چھپا رکھے ہیں۔ شہری چوہے نے اپنے دوست، گاؤں کے چوہے کو ریشمی یرانی قالین پر بٹھایا اور کھڑکیوں کے پیچھے چھپے ہوئے کھانوں میں سے طرح طرح کے کھانے اس کے سامنے لا کر رکھے۔ مہمان چوہا کھاتا جاتا اور خوش ہو کر کہتا جاتا، "واہ یار! کیا مزیدار کھانے ہیں۔ ایسے کھانے تو میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔"
ابھی وہ دونوں قالین پر بیٹھے کھانے کے مزے لوٹ ہی رہے تھے کہ یکایک کسی نے دروازہ کھولا۔ دروازے کے کھلنے کی آواز پر دونوں دوست گھبرا گئے اور جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ اتنے میں دو کتے بھی زور زور سے بھونکنے لگے۔ یہ آواز سن کر گاؤں کا چوہا ایسا گھبرایا کہ اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ ابھی وہ دونوں ایک کونے میں دبکے ہوئے تھے کہ بلیوں کے غرانے کی آواز سنائی دی۔ گاؤں کے چوہے نے گھبرا کر اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، "اے بھائی! اگر شہر میں ایسا مزہ اور یہ زندگی ہے تو یہ تم کو مبارک ہو۔ میں تو باز آیا۔ ایسی خوشی سے تو مجھے اپنا گاؤں، اپنا گندا بل اور مٹر کے دانے ہی خوب ہیں۔"
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، اگست ١٩٩٤ء سے لیا گیا۔

Related Posts:

  • ایک ادیبہ ایک ادیبہ نظم پارہ نظمی ملک کی سب سے نامور ادیبہ کو ایوارڈ مل رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کاش کہ میں بھی اتنی بڑی ہوتی اور مجھے بھی اسی طرح ایوارڈ ملتا۔ مگر ایسا نہیں ہوسکتا تھا، کبھی نہیں۔ نہ میری اتنی معلومات تھی اور نہ مجھ… Read More
  • کھومبے کی شکست کھومبے کی شکستابرار محسن جھرّیوں بھرے چہرے والا بوڑھا جادوگر قبیلے والوں سے بار بار یہی کہتا تھا، "خبردار! جو تم میں سے کسی نے جھیل کے اس پار قدم رکھا! اگر تم میں سے کوئی ادھر گیا تو وہ خود بھی دردناک موت مرے گا اور قبیلے … Read More
  • دو چوہے دو چوہے ڈاکٹر جمیل جالبی دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھا… Read More
  • بھول بھلیّوں کی سیر بھول بھلیّوں کی سیرمعراج عادل مجھے لندن کے قابل دید مقامات کی سیر کرا چکا تھا۔ ہم ہیمپٹن کورٹ کی بھول بھلیّوں کے پاس سے کئی مرتبہ گزرے لیکن ہم نے اسے دیکھنا فضول ہی سمجھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کی داخلہ فیس بہت کم تھی یع… Read More
  • موت کی وادی موت کی وادی ابرار محسن تاروں بھرے آسمان سے چودھویں کا گول مٹول چاند اپنی چاندنی زمین پر برسا رہا تھا۔ جنگل کی طرف سے آنے والی ہوا کے جھونکھوں میں جنگلی پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ بڑی ہی سہانی اور خوبصورت رات تھی۔ آج کی … Read More

0 comments:

Post a Comment

Popular Posts

Blog Archive