Monday, February 19, 2018

ایک ادیبہ
نظم پارہ نظمی
ملک کی سب سے نامور ادیبہ کو ایوارڈ مل رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کاش کہ میں بھی اتنی بڑی ہوتی اور مجھے بھی اسی طرح ایوارڈ ملتا۔ مگر ایسا نہیں ہوسکتا تھا، کبھی نہیں۔ نہ میری اتنی معلومات تھی اور نہ مجھ میں اتنی صلاحیتیں تھیں۔
میں تصوّر میں اس ادیبہ کی جگہ اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی اور ابھی مجھے ایوارڈ ملنے ہی والا تھا کہ کسی نے میرا شانہ پکڑ کر جھنجھوڑا۔ مڑ کر دیکھا تو میری دوست سیما تھی۔ کہنے لگی، "کن سوچوں میں گم ہو؟"
میں نے اسے بتایا کہ میں ملک کی نامور ادیبہ بننا چاہتی ہوں مگر مجھ میں اتنی صلاحیتیں نہیں ہیں اور نہ میں اتنی ذہین ہوں، لیکن میری دلی خواھش ہے کہ مجھے اسی طرح شہرت ملے اور داد ملے۔
سیما نے مجھے سمجھایا کہ ادیبہ بننے کے خواب چھوڑ دو۔ اس میں بڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے، گھر چلو۔ پھر اس موضوع پر بات کریں گے۔
گھر آ کر میں یہی سوچتی رہی کہ سیما نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے اور اسی لیے میں بالکل افسردہ ہوگئی تھی۔ اتنے میں باجی آئیں اور انہوں نے پوچھا، "محفل کیسی رہی؟"
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ باجی نے پھر پوچھا تو میں نے بد دلی سے دو تین باتیں بتا دیں۔ میرے اس رویّے کو دیکھ کر باجی حیران ہوئیں پھر بولیں، "کیا تمھاری وہاں پٹائی ہوئی ہے یا کسی سے لڑائی ہوگئی ہے جو تم پھولی مرغی بنی ہوئی ہو؟"
میں نے کہا، "باجی! میں بھی ادیبہ بننا چاہتی ہوں۔"
اس کے بعد اپنی دلی خواہش تفصیل سے انہیں بتا دی۔
باجی نے کہا، "افسردہ کیوں ہوتی ہو؟ تم نے اپنے دل میں کیسے سوچ لیا کہ تم لکھ نہیں سکتیں؟ کوشش کرو۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔"
باجی کے سمجھانے پر میں نے لکھنے کی کوشش کی، لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی اور غصّے میں آ کر کاپی اور پینسل پھینک دی۔
باجی نے پوچھا، "اب کیا ہوا۔"
میں نے کوئی جواب نہ دیا تو کہنے لگیں، "اچھی گڑیا! مجھ سے کیوں ناراض ہوتی ہو؟"
میں نے کہا، "باجی! میں کہانی لکھ ہی نہیں سکتی۔"
باجی نے کہا، "اچھا اگر کہانی نہیں لکھ سکتیں، مگر تم شہرت بھی حاصل کرنا چاہتی ہو تو ضروری تو نہیں کہ تم ادیبہ ہی بنو۔ تم ڈاکٹر بھی بن سکتی ہو یا کچھ اور بن سکتی ہو۔"
"مگر میں تو ادیبہ بننا چاہتی ہوں۔" میں نے ضد کی۔
باجی نے کچھ سوچ کر کہا، "اچھا یہ بتاؤ جب کہانی لکھنے بیٹھیں تو تمہیں یقین تھا کہ تم کہانی لکھ لو گی؟"
میں نے کہا، " نہیں، مجھے بالکل یقین نہ تھا کہ میں کہانی لکھ لوں گی۔"
باجی نے کہا، " جب تمہیں اپنے آپ پر اعتماد نہیں، یقین نہیں تو تم کوئی بھی کام کیسے کر لوگی؟ اچھا اب غصّہ ٹھنڈا کرو اور یہ ٹافیاں کھاؤ۔"
مجھے ان کی بات پر ہنسی آگئی۔ میں نے کہا، "میں بچّی تو نہیں کہ ٹافیوں سے بہل جاؤں۔"
"اچھا بچّی نہیں ہو تو کہانی لکھو اور پورے یقین کے ساتھ۔"
اب میں بھی کہانی لکھنے بیٹھ گئی۔ اب تو میری عزّت کا سوال تھا اور یقین کا کرشمہ بھی دیکھنا تھا اور پھر واقعی میں نے کہانی لکھ لی۔ یقین کے عنوان سے جو کہانی میں نے لکھی تھی وہ باجی کو دکھائی، انھیں بہت پسند آئی اور انہوں نے مجھے خوب شاباش دی۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ تم کسی دن بڑی ادیبہ بن جاؤ گی۔ اس کے بعد میں نے ایک ایک کر کے کئی کہانیاں لکھ ڈالیں۔ پھر افسانے بھی لکھے اور آج میں اس ادیبہ کی طرح خود بھی ایوارڈ حاصل کر رہی ہوں جس نے مجھے ادیبہ بننے پر اکسایا تھا۔ میں سوچ رہی ہوں کہ مجھے میری منزل تک پہنچانے میں اس ادیبہ، یقین اور باجی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ان تینوں کی وجہ سے ہی میں نے گوہر مقصود حاصل کر لیا ہے۔
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، جولائی ۱۹۸۹ء سے لیا گیا۔

Related Posts:

  • سورج کی تلاش سورج کی تلاش سید فہد بلال ٹنڈرا ایک برفانی علاقہ ہے۔ یہاں رہنے والوں کو اسکیمو کہتے ہیں۔ ٹنڈرا میں شدید سردی ہوتی ہے اور سورج کم نکلتا ہے۔ اس علاقے میں نیذر نامی ایک لڑکا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کا باپ رینڈیئر … Read More
  • بادشاہ کا لباس بادشاہ کا لباس عمر حیات ایک ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یوں تو اللہ نے بادشاہ کو ہر چیز سے نواز رکھا تھا، مگر وہ بہت بےوقوف تھا۔ ایک بار پڑوس کے ملک سے دو درزی بادشاہ کے پاس آئے اور اسے بتایا کہ ہم آپ کو ایک حیرت انگ… Read More
  • بھول بھلکڑ بھول بھلکڑ ناصر محمود خٹک کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔ نام تھا جگنو۔ میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے۔ ننھی سی سونڈ، ننھی سی دم اور بوٹا سا قد، بڑے ہنس مکھ اور یاروں کے یار، مگر خرابی یہ تھی کہ ذرا دماغ کے ک… Read More
  • سونے کی تین ڈلیاں سونے کی تین ڈلیاں مسعود احمد برکاتی دو بھائی تھے۔ ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔ امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔ دونوں میں بنتی نہیں تھی۔ بات یہ تھی کہ امیروف سلیموف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سلیموف کو ضرورت پڑی… Read More
  • شادی کا تماشا شادی کا تماشا کاشف اقبال سارا گھر رنگ برنگے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ ہر طرف رنگین جھنڈیاں لہلہا رہی تھیں۔ خوبصورت ساڑھیوں اور سوٹوں میں ملبوس، کٹے ہوئے بالوں کے ساتھ خواتین ادھر ادھر گھوم رہی تھیں، مگر ان کے چہروں پر بارہ … Read More

0 comments:

Post a Comment

Popular Posts

Blog Archive