Monday, February 19, 2018

ہیرے والا شترمرغ
رؤف پاریکھ
"اگر تم پرندوں کی قیمت کی بات کرتے ہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ میں نے ایک ایسا شترمرغ بھی دیکھا ہے جس کی قیمت تین ہزار پاؤنڈ لگائی گئی تھی۔ تین ہزار پاؤنڈ! سمجھے؟" اس نے مجھے چشمے کے اوپر سے گھورتے ہوئے کہا۔
اس کا کام پرندوں کی کھال میں بھُس بھر کر اسے بچنا تھا، اسی لیے وہ پرندوں اور ان کی قیمتوں کے قصّے سنایا کرتا تھا۔

سام پہ کیا گزری
اظفر مہدی
قمیض کے بٹن بند کرتے ہوئے سام کی نظر اپنے بوڑھے انکل فریڈرک کی طرف اٹھ گئی۔ وہ ٹیبل لیمپ کی روشنی میں کسی موٹی سی کتاب کے اوپر جھکے ہوئے تھے۔ سام سوچ میں پڑ گیا، "میری پیدائش سے لے کر اب تک انہوں نے میرا خیال رکھا، مگر اب ان کا خیال کون رکھے گا؟ کل مجھے اپنے سفر پر بھی روانہ ہونا ہے اور۔۔۔۔۔"

منشی جی
ساجد احمد خان
کسی ریاست میں ایک منشی جی رہتے تھے۔ انہوں نے اردو اور فارسی کی اعلی تعلیم حاصل کر رکھی تھی اور مشکل سے مشکل کتابوں کو بڑی آسانی سے سمجھا دیتے تھے، مگر شروع ہی سے انہوں نے خوشخطی کی طرف ذرا بھی دھیان نہیں دیا تھا۔ اسی لیے ان کی تحریر ٹیڑھی اور ترچھی ہوتی تھی۔ کبھی کبھی تو اپنا لکھا ہوا خود بھی نہیں پڑھ پاتے تھے۔ ویسے بھی انہیں لکھنے کی ضرورت بہت

گانے کی تھیلی
سید محمد علی بابر زیدی
دور دراز پہاڑوں میں ایک بوڑھا رہتا تھا۔ اس کے گلے پر ایک بڑی سی رسولی تھی جو ہلتی رہتی تھی۔ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ یہ رسولی اس بوڑھے کے لیے ایک عذاب بن گئی تھی۔ وہ ہر قیمت پر اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ایک دفعہ بوڑھا جنگل میں لکڑیاں جمع کرنے کے لیے کافی دور تک چلا گیا۔ اس نے لکڑیاں جمع کیں، پھر ان کا گٹھر بنایا اور پیٹھ پر لاد کر واپس

بہادر شکاری
نجم الثاقب
سوئزرلینڈ کے اونچے پہاڑوں کے دامن میں ایک آدمی رہتا تھا، جس کا نام ولیم ٹیل تھا۔ ولیم ٹیل ایک بہادر اور زبردست شکاری تھا۔ وہ اپنے تیر کمان سے صحیح نشانہ لگانے کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور تھا۔ اس وقت سوئزرلینڈ میں ایک ظالم شخص کی حکومت تھی، جس کا نام گیسلر تھا۔ گیسلر اپنی طاقت کے مظاہرے کر کے لوگوں پر رعب جماتا تھا۔ اس نے بہت سے سخت قوانین

سچ جھوٹ
زبیدہ عنبرین
بہت عرصے کی بات ہے۔ لبنان میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہاں کے لوگوں کو اپنے بادشاہ سے بڑی محبّت تھی۔ اور بادشاہ بھی رعایا کا بےحد خیال رکھتا تھا۔ وہ اپنے بزرگوں کی تقلید کرتے ہوئے روزانہ سادہ کپڑوں میں شہر کی گلیوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے بارے میں معلوم کرتا رہتا تھا کہ لوگ کس طرح دن گزار رہے ہیں۔ اگر کوئی دکھی ہوتا تو بادشاہ اس کی مدد بھی کر دیا کرتا۔

پیشن گوئی
ابرار محسن
برے لوگوں سے کسی بھی اچھائی کی امید رکھنا فضول ہے۔ یہی وجہ تھی جو فیسی لگڑبھگا بری بات کے علاوہ اور کچھ سوچتا ہی نہیں تھا۔ ایک دن اس کے ذہن میں ایک شیطانی خیال آیا کہ کسی طرح جنگل کے جانوروں کو کسی خیالی خوف میں مبتلا کر دے۔ دراصل یہ کوئی انجانا خوف ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے آدمی کبھی ستاروں کی چال دیکھتا ہے، ہاتھ کی لکیریں پڑھواتا ہے اور بہت سے وہموں

ملکہ اولگا کا انتقام
مولانا عبدالحلیم مرحوم
بہت دن گزرے ملک کیف پر ایک بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس کا نام اغور تھا۔ وہ ہر وقت سیر و تفریح میں مصروف رہتا تھا۔ اسے ملک کے انتظام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لوگ اغور کو بہت ناپسند کرتے تھے۔ اس کی ملکہ اولگا بہت خوبصورت، عقلمند اور ہوشیار عورت تھی۔ اس نے ملک کا سب انتظام سنبھالا ہوا تھا۔ مظلوم لوگ ظلم و ستم کی فریاد لے کر ملکہ کے پاس پہنچتے۔ وہ

غریب ہی اچھا
مسعود احمد برکاتی
ایک آدمی دولت کمانے کی خواہش پوری کرنے کے لیے ہالینڈ گیا۔ وہ ہالینڈ کے دارلحکومت ایمسٹریڈم پہنچا۔ اس شہر میں ادھر ادھر گھومتے پھرتے اس نے ایک بہت عالیشان عمارت دیکھی۔ بہت دیر تک عمارت کو دیکھتا اور سوچتا رہا کہ یہ کس شخص کا مکان ہے؟ کون خوش قسمت شخص اس میں رہتا ہوگا؟ وہ کتنا مال دار ہوگا؟ ایک آدمی قریب سے گزر رہا تھا۔ مسافر نےاس شخص سے پوچھا

"ب" سے بچ کر رہنا
سید خرم ریاض
یہ نجومی لوگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ اس سے دوسروں کی زندگی خراب ہوجاتی ہے۔
ہمارے گھر کے کچھ دور ایک نجومی صاحب نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ ایک روز میں نے سوچا کہ ان سے اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھنا چاہیے۔ چنانچہ میں ان کے پاس گیا۔ انہوں نے میرا ہاتھ دیکھا اور فرمانے لگے، "زندگی میں ہمیشہ "ب" سے بچ کر رہنا۔ مطلب

مچھلی سب کو ملی
میم ندیم
مچھیرے نے الله کا نام لے کر ندی میں جال ڈالا۔ دن بھر کے انتظار کے بعد دو بڑی سی مچھلیاں ہاتھ لگیں۔ وہ اپنا جال سمیٹ رہا تھا کہ ایک چیل تیزی سے جھپٹی اور اپنے پنجوں میں ایک مچھلی دبا کر اڑ گئی۔ مچھیرے کو بہت افسوس ہوا، مگر پھر وہ کچھ سوچ کر مسکرایا۔ اس کا بیٹا چیل اور اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔ مچھیرے نے کہا، "بیٹا الله کا شکر ادا کرو کہ ایک مچھلی بچ گئی۔ دوسری

ستاروں کی گنتی
ابرار محسن
فیسی لگڑبھگا غمگین تھا اور جھلّایا ہوا بھی۔ اس کا مزاج انتہائی خراب تھا۔ اسی لیے اس پر ہر وقت جھلّاہٹ سوار رہتی تھی۔ وہ جنگلی جانوروں سے بہت زیادہ ناراض رہتا تھا۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا سب اسے ناپسند کرتے تھے۔ ظاہر ہے اس بدمزاج، بددماغ اور گندے لگڑبھگے میں ایسی کون سی بات تھی جو اسے پسند کرتا۔ اس کی جھلّاہٹ خصوصاً اس وقت بہت بڑھ جاتی تھی جب اسے خیال

دو خواہشیں
ادارہ
کریمو ایک غریب مچھیرا تھا۔ وہ دن بھر ندی کے کنارے بیٹھا مچھلیاں پکڑتا اور شام کو انہیں لے جا کر شہر میں بیچ کر کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر لوٹتا۔ اس طرح غریب کریمو کے دن گزر رہے تھے۔ ایک دن کریمو ندی کے کنارے بیٹھا مچھلیاں پکڑ رہا تھا کہ اچانک تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ سائیں سائیں کرتی ہوئی ہواؤں کے درختوں سے ٹکرانے سے عجیب سا شور پیدا ہو رہا تھا۔ ندی کا پانی

قازوں کا سردار
جونکو واساسے
اس سال بھی قازوں کا سردار ژان سے تسو قازوں کا ایک جھنڈ لے کر اس دلدلی جگہ پر آیا۔ ژان سے تسو تو ایک قاز کا نام ہے، کیوں کہ اس کے دونوں سرمئی پروں پر ایک ایک سفید نشان ہوتا ہے، اس لیے شکاری اسے ژان سے تسو کہتے ہیں۔
ژان سے تسو کے معنی موسم بہار تک پہاڑ پر باقی رہ جانے والی برف ہے۔ ژان سے تسو وہاں پر جمع ہونے والی قازوں

ادیب کا لاکر
شازیہ نور
بہت عرصے پہلے کی بات ہے۔ چین کے کسی شہر میں ایک شخص چینگ کرانو رہتا تھا۔ چینگ کرانو بہت اچھا ادیب تھا۔ برسوں سے وہ اکیلے ہی رہتا چلا آ رہا تھا۔ اپنے کم بولنے کی عادت کی وجہ سے وہ کسی سے دوستی نہ کر سکا۔ اس کے پڑوس میں ایک غریب، مگر پیاری سی لڑکی ژیانگ رہتی تھی۔ ژیانگ کو کہانیاں سننے اور پڑھنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ کرانو چوں کہ اچھا ادیب تھا، اس لیے ژیانگ

مغرور لومڑی
ڈاکٹر جمیل جالبی
ایک بلی آبادی سے دور ایک جنگل میں رہتی تھی۔ وہیں پاس ہی ایک لومڑی بھی رہتی تھی۔ آتے جاتے اکثر ان کی ملاقات ایک دوسرے سے ہو جاتی تھی۔
ایک دن جب سورج چمک رہا تھا اور خوب دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ ایک گھنے پیڑ کے نیچے ان کی ملاقات ہوئی۔ خاصی دیر دونوں

شاہی شاعر
میم ندیم
پچھلے زمانے میں جس شاعر کی رسائی شاہی دربار تک ہو جاتی تھی اور بادشاہ سلامت کو اس کا کلام پسند آ جاتا اس شاعر کو شاعرِ اعظم کا خطاب مل جاتا تھا، یعنی وہ درباری شاعر بن جاتا تھا۔ اس کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی تھیں۔
بادشاہ کی شان میں ایک قصیدہ پیش کر دیا، اس پر خلعت عطا کردی گئی، اشرفیوں کی تھیلی ملی اور اس کے علاوہ ماہانہ یا سالانہ

کاہلی کا انجام
نیاز علی بھٹی
کسی دریا کےکنارے چھوٹا سا جوہر تھا جس میں تین مچھلیاں رہتی تھیں۔ وہ سارا دن ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گھومتیں، کھیلتیں اور خوراک حاصل کرتیں۔ان میں ایک بہت عقلمند اور ہوشیار تھی ، دوسری کم ہوشیار اور تیسری بالکل کاہل تھی، لیکن چونکہ تینوں اتفاق سے رہتی تھیں، اس لیے ان کا گزارا ہو ہی جاتا تھا جس کی خاص وجہ عقلمند مچھلی کا رویّہ تھا۔ وہ دوسری دونوں مچھلیوں

بادشاہ کا فیصلہ
رحمت اللہ
ایک بادشاہ تھا۔ وہ دن بھر ملک کے انتظامی کاموں میں اتنا مصروف رہتا تھا کہ اسے آرام کرنے کی لیے بہت ہی کم فرصت ملتی تھی۔ ایک دن اسے خیال آیا کہ یہ بادشاہت تو ایک مصیبت ہے۔ ہر وقت کام میں لگا رہتا ہوں۔ نہ دن کو چین ملتا ہے نہ رات کو آرام۔ کیوں نہ تاج و تخت اسے سونپ دوں جو خوشی اور سکون سے اپنی زندگی گزار رہا ہو۔

عقلمند کسان
محمد مقبول الہی
ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ وہ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ کھیتوں کی مکمل پہرے داری کرتا تھا، مگر جب فصل پک کر تیار ہوجاتی تو گاؤں کا سردار اس کی ساری فصل زبردستی لے لیتا اور اسے تھوڑا سا حصہ دے دیتا۔ کسان اور اس کی بیوی کی بڑی مشکل سے گزر اوقات ہوتی تھی۔

چوتھا کہاں گیا؟
اشرف نوشاہی
ایک دن چار دیہاتی اپنے گاؤں کے قریبی دریا پر مچھلیاں شکار کرنے گئے۔ صبح سے سہ پہر تک وہ وہاں رہے اور بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ یہ ساری مچھلیاں پہلے تو ہر ایک نے اپنے پاس ڈھیر کر لیں اور پھر ان کو بانس میں پرو کر ہر ایک نے اپنے اپنے کندھے سے لٹکا لیا اور گھر چل دیے۔ وہ بہت خوش تھے۔

۸۰ دن میں دنیا کا چکر
علی اسد
اب سے سو برس قبل نہ تو ایسے ہوائی جہاز ہوتے تھے جو چھے سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتے ہوں اور نہ ایسے پانی کے جہاز تھے جو چار روز میں بحر اوقیانوس کو پار کرلیں۔ حقیقت تو یہ ہے ان دنوں میں ہوائی جہاز تھے ہی نہیں۔ چنانچہ پوری دنیا کے گرد چکر لگانے کے لیے کم از کم تین مہینے درکار ہوتے تھے۔ اس کے باوجود ہم آپ کو ایک ایسے آدمی کی داستان سناتے ہیں جس نے بیس ہزار

سندباد جہازی کے حیرت انگیز سفر
احمد خاں خلیل
پہلا سفر
خلیفہ ہارون الرشید کا پائے تخت بغداد تھا۔ اس زمانے میں بغداد دنیا بھر کے شہروں کا شہزادہ تھا۔ اس میں عالی شان محل اور خوبصورت حویلیاں تھیں۔ اس کے بازار بڑے بڑے اور بارونق تھے۔ شہر میں امیر اور غریب، بہادر اور شہہ سوار، عالم اور فاضل، ہنرمند

مغرور شہزادی
شمشاد خان
بہت عرصے پہلے کی بات ہے۔ ایک بادشاہ تھا۔ اس کی ایک خوبصورت اور اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی خوبصورتی اور دولت کی وجہ سے وہ بہت مغرور اور گستاخ ہوگئی تھی۔ جب بھی کہیں سے اس کے لیے شادی کا پیغام آتا وہ اسے ٹھکرا دیتی اور اس کا خوب مذاق اڑاتی تھی۔
ایک دن بادشاہ نے ایک بڑی دعوت کی اور اس میں شہزادی سے شادی کرنے والے تمام امیدواروں کو بلایا۔ سب لوگ اپنے

ماشا کی کہانی
ساجدہ رحمٰن
ماشا ایک چھوٹی سی لڑکی تھی۔ وہ اپنے نانا اور نانی کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کا گھر جنگل کے قریب تھا۔
ایک دن ماشا کے سب دوست جنگل میں بیر توڑنے جا رہے تھے۔ ماشا کا بھی جی چاہا کہ ان کے ساتھ جائے۔ اس کے نانا نے اجازت تو دے دی، مگر ساتھ میں یہ بھی کہا کہ دیکھنا دھیان سے جانا، جنگل میں کہیں راستہ نہ بھول جاؤ۔

گروی آنکھ
شکیل فاروقی
ایک تھا شہر۔ صاف ستھرا، چھوٹا، مگر خوبصورت۔ اس میں رہتا تھا ہیروں کا سوداگر۔ اس کے تھے دو دوست۔ بہت گہرے، بہت پکّے۔ ان میں ایک دوست تھا لنگڑا۔ وہ ریشمی کپڑے کی تجارت کے لیے ملک در ملک جایا کرتا تھا۔ دوسرا دوست تھا کانا۔ ہیروں کا سوداگر اسے پیار سے "کانیا" کہہ کر پکارتا تھا۔ تینوں دوستوں میں بہت گاڑھی چھنتی تھی۔ ایک بار لنگڑا تاجر تجارت کے سلسلے میں عرب

اصلی جادو
معراج
چینی جادوگر ہوانگ ہو اپنے کمالات دکھانے کے لیے آ رہا تھا۔ اسکول کے سب بچے بہت بےچینی سے اس کے آنے کا انتظار کر رہے تھے ۔ آخر وہ دن آ پہنچا جس کا سب بچوں کو بڑی شدت سے انتظار تھا۔
مس عابدہ نے کہا، "میں کل سب بچوں کو دوپہر کے بعد ٹاؤن ہال لے جاؤں گی۔ جو بچے جادو کا شو دیکھنا چاہتے ہیں وہ دو دو روپے دے

خوشی کی پری
نصرت شاہین
تارا چارپائی پر لیٹی آسمان کی طرف تکے جا رہی تھی۔ جگ مگ کرتے ستارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔ تارا کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ آج اس کی تائی ماں نے پلیٹ ٹوٹ جانے پر اسے روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا تھا۔
تارا نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "کاش! میں پری ہوتی! نیلے آسمان پر اڑتی اور زمین پر لوگوں کے دکھ بانٹتی۔"

گدھے کے کان
فاطمہ مسعود
ایک بادشاہ تھا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا۔ وہ اسی وجہ سے بہت اداس رہتا تھا۔ آخر اس نے اس سلسلے میں پریوں سے مدد مانگی۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا۔
بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ پھر ایک سال کے اندر اندر بادشاہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ تینوں پریوں نے آ کر شہزادے کو

ڈرپوک چڑیلیں
اظہر علی اظہر
"میرے ساتھی چار بجے کے قریب رخصت ہو گئے۔ لاش کے قریب ہی ایک اونچا درخت تھا جس پر میرے ساتھی مچان بنا گئے تھے۔ میں وہاں بیٹھ گیا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے کافی دیر انتظار کرنا پڑے گا، کیوں کہ آدم خور شیر اندھیرا ہونے سے پہلے لاش کھانے نہیں آئے گا۔ آہستہ آہستہ ہر چیز اندھیرے میں ڈوبتی گئی۔ جنگل بڑا خوف ناک اور بھیانک ہو گیا۔ چاروں طرف موت کا سا سناٹا چھا گیا۔ میرے

مونٹی کرسٹو کا نواب
مسعود احمد برکاتی
جہاز کپتان کے بغیر
سب سے پہلے ایک چھوٹے سے بچے کی نظر بحری جہاز "فیرون" پر پڑی۔ یہ جہاز کپڑے اور رنگ لے کر مارسیلز  سے آ رہا تھا۔ اس کو دیکھنے کے لیے ایک ہجوم سمندر کے کنارے جمع ہو گیا تھا۔ ۱۸۱۵ء میں کوئی جہاز بندرگاہ پہنچتا تھا تو لوگ بڑے اشتیاق سے دیکھتے تھے۔

کہاوتوں کی کہانیاں
رؤف پاریکھ
اونٹ کے گلے میں بلّی، دودھ کا دودھ پانی کا پانی، یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے، اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا، اس قسم کے عجیب جملے آپ اپنے بڑے بوڑھے اور بزرگوں سے اکثر سنتے ہوں گے۔ ایسے جملوں کو کہاوت یا ضرب المثل یا مختصراً صرف مثل کہا جاتا ہے۔ کہاوت کسی واقعے یا بات میں چھپی ہوئی سچائی یا عقل کی بات کو سمجھانے کے لیے بولی جاتی ہے۔

انشا پارے
ادارہ
کچھوا اور خرگوش
ایک تھا کچھوا، ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگی۔ کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں شرط لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے

دشمن کا فریب
مقصود احمد ظفر
ایک بوڑھا سانپ جس میں چلنے پھرنے طاقت نہیں رہی تھی ایک جھیل کے قریب آہستہ آہستہ آ کر بیٹھ گیا۔ وہ بڑا پریشان اور غمگین دکھائی دے رہا تھا۔ مینڈکوں کے بادشاہ نے اسے دیکھا تو پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ اتنا دلگیر کیوں ہے؟
سانپ نے جواب دیا، "بھائی تجھے کیا؟ میں اپنی پریشانی تجھے بتا نہیں سکتا۔"

چاند کا بوڑھا
جاوید اقبال سہتہ
آج سے صدیوں پہلے کا ذکر ہے کہ جاپان میں کسی جگہ لومڑ، بندر اور خرگوش رہتے تھے۔ ان کی آپس میں بہت گہری دوستی تھی۔ اگر ان میں سے کسی ایک کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا تو باقی دو اس کو کھانے کے لیے کچھ دیتے۔ اسی طرح وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔

گدھا کہانی
میرزا ادیب
قیمتی تحفہ
کرم الہی ایک چھوٹا سا دکاندار تھا، مگر قصبے کے لوگ اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کرم الہی ایک نیک دل، سادہ مزاج اور دیانت دار آدمی تھا۔ گاہکوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا۔ کبھی کسی کو اس سے شکایت کا موقع نہیں ملا تھا۔ بڑا ہنس مکھ

چمکنے والے پھول
معراج
علامہ دانش سے بہت دنوں تک ملاقات نہیں ہوئی۔ ہم ان سے ملنے اور کوئی نیا معرکہ سرانجام دینے کے لئے بے تاب تھے۔ علامہ کے پاس نت نئی خبروں کا ذخیرہ رہتا تھا، لیکن وہ کسی مہم پر جانے سے پہلے اس خبر کے متعلق پوری تحقیق کرکے معلومات ضرور حاصل کیا کرتے ۔ آخر ایک دن علامہ ہمارے دفتر میں پہنچے۔ ہم نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ علامہ نے اپنا بیگ کھول کر ایک اخبار کا

پراسرار غار میں
معراج
ہم نے علامہ دانش کے ساتھ بہت سے سفر کئے۔ ہر دفعہ ہم کوئی نہ کوئی بات دریافت کرکے واپس لوٹے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ ہم کسی خبر کی تصدیق کے لئے اس جگہ پہنچے تو بات کچھ اور ہی نکلی۔
ایک دن علامہ نے اطلاع دی کہ ہمیں بورینو چلنا

خزانے کی تلاش
معراج
علامہ دانش نے قہوے کی چسکی لے کر سوال کیا، "آپ میں سے کوئی صاحب خزانے کی تلاش میں دلچسپی رکھتا ہے؟"
کپتان مرشد نے کہا، "میں ایسی مہموں میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔"
علامہ دانش نے کہا، "میں پوچھ سکتا ہوں کہ کس

سورج کی تلاش
سید فہد بلال
ٹنڈرا ایک برفانی علاقہ ہے۔ یہاں رہنے والوں کو اسکیمو کہتے ہیں۔ ٹنڈرا میں شدید سردی ہوتی ہے اور سورج کم نکلتا ہے۔ اس علاقے میں نیذر نامی ایک لڑکا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کا باپ رینڈیئر پالتا تھا۔ رینڈیئر ایک بڑے بارہ سنگھے جیسا جانور ہوتا ہے۔ یہ لوگ ایک چراگاہ میں رینڈیئر چرانے کے بعد دوسری چراگاہ میں چلے جاتے۔ نیذر اسکول نہیں جاتا تھا بلکہ اپنے باپ کا ہاتھ

بھول بھلکڑ
ناصر محمود خٹک
کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔ نام تھا جگنو۔ میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے۔ ننھی سی سونڈ، ننھی سی دم اور بوٹا سا قد، بڑے ہنس مکھ اور یاروں کے یار، مگر خرابی یہ تھی کہ ذرا دماغ کے کمزور تھے۔ بس کوئی بات ہی نہیں رہتی تھی۔ امی جان کسی بات کو منع کرتیں تو ڈر کے مارے ہاں تو کرلیتے مگر پھر تھوڑی ہی دیر بعد بالکل بھول جاتے اور اس بات کو پھر کرتے لگتے۔ ابا جان

شادی کا تماشا
کاشف اقبال
سارا گھر رنگ برنگے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ ہر طرف رنگین جھنڈیاں لہلہا رہی تھیں۔ خوبصورت ساڑھیوں اور سوٹوں میں ملبوس، کٹے ہوئے بالوں کے ساتھ خواتین ادھر ادھر گھوم رہی تھیں، مگر ان کے چہروں پر بارہ بج رہے تھے جیسے انہیں یہاں آکر بےحد مایوسی ہوئی ہو۔ ایک طرف ڈھولک کے گرد گھیرا ڈالے بہت سی لڑکیاں جمع تھیں، مگر ڈھولک بجانے اور گیت گانے کے

بادشاہ کا لباس
عمر حیات
ایک ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یوں تو اللہ نے بادشاہ کو ہر چیز سے نواز رکھا تھا، مگر وہ بہت بےوقوف تھا۔ ایک بار پڑوس کے ملک سے دو درزی بادشاہ کے پاس آئے اور اسے بتایا کہ ہم آپ کو ایک حیرت انگیز لباس تیار کرکے دیں گے۔ بادشاہ نے پوچھا، "حیرت انگیز سے کیا مطلب ہے تمہارا؟"

سونے کی تین ڈلیاں
مسعود احمد برکاتی
دو بھائی تھے۔ ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔ امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔ دونوں میں بنتی نہیں تھی۔ بات یہ تھی کہ امیروف سلیموف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سلیموف کو ضرورت پڑی تو اس نے کچھ دیر کے لیے بڑے بھائی سے گھوڑا مانگا۔ سردیاں آنے والی تھیں اور جنگل سے لکڑیاں لانی تھیں۔ امیروف چاہتا تو نہ تھا پھر بھی اس نے گھوڑا دے دیا۔ سلیموف جنگل

بھول بھلیّوں کی سیر
معراج
عادل مجھے لندن کے قابل دید مقامات کی سیر کرا چکا تھا۔ ہم ہیمپٹن کورٹ کی بھول بھلیّوں کے پاس سے کئی مرتبہ گزرے لیکن ہم نے اسے دیکھنا فضول ہی سمجھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کی داخلہ فیس بہت کم تھی یعنی صرف دو پنس۔ پھر اس کا نقشہ دیکھنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کی بناوٹ بالکل سادہ ہے اور یہ پارک لوگوں کو ٹھگنے اور بیوقوف بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔

موت کی وادی
ابرار محسن
تاروں بھرے آسمان سے چودھویں کا گول مٹول چاند اپنی چاندنی زمین پر برسا رہا تھا۔ جنگل کی طرف سے آنے والی ہوا کے جھونکھوں میں جنگلی پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ بڑی ہی سہانی اور خوبصورت رات تھی۔
آج کی رات "چولو" گاؤں کے لوگ مہمان بن کر "کھوما" گاؤں آئے ہوئے تھے۔ چودھویں رات کو ایک گاؤں کے لوگوں کا

کھومبے کی شکست
ابرار محسن
جھرّیوں بھرے چہرے والا بوڑھا جادوگر قبیلے والوں سے بار بار یہی کہتا تھا، "خبردار! جو تم میں سے کسی نے جھیل کے اس پار قدم رکھا! اگر تم میں سے کوئی ادھر گیا تو وہ خود بھی دردناک موت مرے گا اور قبیلے کو بھی تباہ کردے گا۔ جھیل کے اس پار بری روحوں اور خوفناک بلاؤں کا مسکن ہے۔ وہاں جا کر تم انہیں طیش دلا دوگے اور وہ تمہاری دشمن ہوجائیں گی۔ تم نہیں

دو چوہے
ڈاکٹر جمیل جالبی
دو چوہے تھے جو ایک دوسرے کے بہت گہرے دوست تھے۔ ایک چوہا شہر کی ایک حویلی میں بل بنا کر رہتا تھا اور دوسرا پہاڑوں کے درمیان ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ گاؤں اور شہر میں فاصلہ بہت تھا، اس لیے وہ کبھی کبھار ہی ایک دوسرے سے ملتے تھے۔
ایک دن جو ملاقات ہوئی تو گاؤں کے چوہے نے اپنے دوست شہری چوہے سے کہا، "بھائی! ہم دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست

ایک ادیبہ
نظم پارہ نظمی
ملک کی سب سے نامور ادیبہ کو ایوارڈ مل رہا تھا۔ میں سوچ رہی تھی کاش کہ میں بھی اتنی بڑی ہوتی اور مجھے بھی اسی طرح ایوارڈ ملتا۔ مگر ایسا نہیں ہوسکتا تھا، کبھی نہیں۔ نہ میری اتنی معلومات تھی اور نہ مجھ میں اتنی صلاحیتیں تھیں۔
میں تصوّر میں اس ادیبہ کی جگہ اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی اور ابھی مجھے ایوارڈ ملنے ہی والا تھا کہ کسی نے میرا شانہ پکڑ کر جھنجھوڑا۔ مڑ کر

عقل مند فقیر
حافظ محمد بن مالک
ایک مرتبہ ایک فقیر کسی میدان سے اکیلا گزر رہا تھا۔ اسے دو سوداگر نظر آئے ۔ اس نے سوداگروں سے پوچھا، "بھائیو! کیا تمہارا اونٹ کھو گیا ہے؟"
سوداگر خوش ہوئے اور بولے، "تم نے دیکھا ہے کیا؟"

چالاک خرگوش کے کارنامے
ہنسی سے لوٹ پوٹ کر دینے والا بچوں کا ناول
معراج
نونہال ادب
ہمدرد فاؤنڈیشن، کراچی

کنویں کے مینڈک
اُمرائی انوری
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ بڑی سخت گرمی پڑی اور برسات کا موسم بھی صاف نکل گیا۔ تالاب اور جھیلیں خشک ہونے لگیں۔ جھیلوں میں مچھلیاں تڑپ تڑپ کر مرنے لگیں۔ بگلوں نے اب دریا کا رخ کیا جہاں بےشمار مچھلیاں رہتی تھیں۔ ایک بگلے نے ایک موٹی تازی مچھلی پکڑی اور چونچ میں دبا کر لے اڑا کہ کسی

نونہالوں کے معراج صاحب
مسعود احمد برکاتی
معراج صاحب کا پورا نام خواجہ محمد عارف تھا، لیکن اپنی کہانیوں پر وہ صرف اپنا قلمی نام "معراج" لکھا کرتے تھے۔ معراج صاحب نے ہمدرد نونہال کے علاوہ بچوں کے کسی رسالے میں کہانیاں نہیں لکھیں۔ وہ ہمدرد نونہال کو دل سے پسند کرتے تھے اور صرف اس کے پڑھنے والے نونہالوں کے لیے کہانیاں لکھتے تھے۔ معراج صاحب نونہالوں کے لیے بہت دلچسپ، مزاحیہ اور سبق آموز کہانیاں

سفید کبوتری
زکریا تامر
اس بڑی سی دنیا کے کسی حصّے میں ایک سرسبز اور شاداب جنگل تھا۔ جس کے بیچوں بیچ ایک نہر بہتی تھی۔ یہیں ایک سفید کبوتری اپنے ایک بچے کے ساتھ بڑے چین و آرام سے رہتی تھی۔ ایک دن کبوتری اپنے دانے دُنکے کی تلاش میں اپنے گھونسلے سے نکلی۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے بچّہ گھونسلے میں نہیں ہے۔

عجیب و غریب ریاست
اعجاز احمد میمن​
میرا نام رڈولف ہے۔ میں "اسکندریہ" نامی ایک جہاز راں کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ بحری سفر کے دوران میرے ساتھ کئی حیرت انگیز، دلچسپ اور خوفناک واقعات پیش آئے۔ ان میں سے ایک واقعہ پیش کر رہا ہوں۔
ہمارا جہاز اسکندریہ-٦٨٠، ٢٤ دسمبر کو "فیڈریہ" نامی بندرگاہ سے مال لے

ہنسنا منع ہے
ادارہ
بچوں کے لطائف
ماہنامہ ہمدرد نونہال کے پرانے شماروں سے منتخب کردہ لطائف۔
٭٭٭

قصّہ ایک بھیڑیے کا
ڈاکٹر جمیل جالبی
 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چاندنی رات میں ایک دبلے پتلے، سوکھے مارے بھوکے بھیڑیے کی ایک خوب کھائے پیئے، موٹے تازے کتّے سے ملاقات ہوئی۔ دعا سلام کے بعد بھیڑیے نے اس سے پوچھا، "اے دوست! تُو تو خوب تر و تازہ دکھائی دیتا ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ سے زیادہ موٹا تازہ جانور آج تک نہیں دیکھا۔ بھائی! یہ تو بتا کہ اس کا کیا راز ہے؟ میں تجھ سے

دو دوست، دو دشمن
ڈاکٹر جمیل جالبی
گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔ بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا، "اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔"
چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا، "میرا خاندان بھی یہاں سینکڑوں سالوں سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا

ناشکرا ہرن
ڈاکٹر جمیل جالبی​
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب بندوق ایجاد نہیں ہوئی تھی اور لوگ تیرکمان سے شکار کھیلتے تھے۔
ایک دن کچھ شکاری شکار کی تلاش میں جنگل میں پھر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ایک ہرن پر پڑی۔ وہ سب اس کے پیچھے ہولیے۔ شکاری ہرن کو چاروں طرف سے گھیر رہے تھے اور ہرن اپنی جان بچانے کے لیےتیزی سے بھاگ تھا۔ جب وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا تو یک گھنی انگور کی بیل کے اندر

نادانی کی سزا
ڈاکٹر جمیل جالبی
گرمی میں ایک شیر شکار کو نکلا۔ چلچلاتی دھوپ میں، تپتی ہوئی زمین پر چلنے سے وہ جلد ہی تھک گیا اور ایک بڑے سے سایہ دار گھنے درخت کے نیچے آرام کرنے لیٹ گیا۔
ابھی وہ سویا ہی تھا کہ کچھ چوہے اپنے بلوں سے باہر نکلے اور نادانی سے اس کی پیٹھ پر اچھلنے کودنے لگے۔ اس سے شیر کی آنکھ کھل گئی۔ وہ غرایا اورغصّے

نادان بکری
ڈاکٹر جمیل جالبی
اتفاق سے ایک لومڑی ایک کنویں میں گر پڑی۔ اس نے بہت ہاتھ پیر مارے اور باہر نکلنے کی ہر طرح کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئی۔ ابھی وہ کوشش کر ہی رہی تھی کہ اتنے میں ایک بکری پانی پینے کے لیے وہاں آ نکلی۔
بکری نے لومڑی سے پوچھا، "اے بہن! یہ بتاؤ کہ پانی کیسا ہے؟"

نارنجی بیل
معراج
باہر موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم سب برآمدے میں کھڑے بارش کا نظارہ کررہے تھے۔ ایک ٹیکسی ہمارے دفتر کے باہر آ کر رکی اور اس میں سے ہمارے معزز دوست علامہ دانش اترے۔ انہوں نے حسبِ معمول برساتی کوٹ پہنا ہوا تھا، سر پر ترکی ٹوپی، پاؤں میں فل بوٹ، ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں چھتری تھی۔

ڈوڈو کی تلاش
معراج
چائے پینے کے بعد ہم گپ شپ میں مصروف تھے۔ اچانک علامہ دانش نے ایک سوال پوچھا، "اچھا یہ بتائیے کہ وہ کون سا پرندہ ہے جس کی نسل تھوڑے عرصے پہلے ہی ختم ہوئی ہے؟"
مرشد نے الل ٹپ دو تین نام گنوائے۔ علامہ ہر بار مسکرا کر کہتے، "غلط، بالکل غلط۔"

سونٹے والا بھوت
معراج
ہم برما کے سفر سے واپس لوٹے تو میز پر کچھ خطوط پڑے ہوئے تھے۔ علامہ نے ان خطوط کو پڑھا۔ ایک خط ان کے مطلب کا نکل آیا۔ یہ کسی جن بھوت کے متعلق تھا۔ اتفاق سے علامہ دانش ان دنوں بھوتوں میں بہت دلچسپی لے رہے تھے۔ علامہ نے کہا، "ایک اور سفر کی تیاری کیجیے۔ اب ہمیں جنوبی افریقہ سے دعوت نامہ ملا ہے۔"

Popular Posts

Blog Archive