Monday, February 19, 2018

نادانی کی سزا
ڈاکٹر جمیل جالبی
گرمی میں ایک شیر شکار کو نکلا۔ چلچلاتی دھوپ میں، تپتی ہوئی زمین پر چلنے سے وہ جلد ہی تھک گیا اور ایک بڑے سے سایہ دار گھنے درخت کے نیچے آرام کرنے لیٹ گیا۔
ابھی وہ سویا ہی تھا کہ کچھ چوہے اپنے بلوں سے باہر نکلے اور نادانی سے اس کی پیٹھ پر اچھلنے کودنے لگے۔ اس سے شیر کی آنکھ کھل گئی۔ وہ غرایا اورغصّے
میں آ کر ایک چوہے کو اپنے پنجے میں دبوچ لیا۔ ابھی وہ اسے مارنے ہی والا تھا کہ چوہے نے نہایت عاجزی سے کہا، "اے جنگل کے بادشاہ! مجھ غریب پر رحم کیجیے۔ مجھ جیسے چھوٹے اور کمزور کو مارنے سے آپ کی خاندانی شرافت پر آنچ آئے گی اور سارے جنگل میں بدنامی ہوگی کہ جنگل کے بادشاہ شیر نے ایک چوہے کو مار دیا ہے۔"
یہ بات سن کر شیر نے اس پر ترس کھایا اور ڈرتے کانپتے چوہے کو آزاد کر دیا۔
کچھ دن بعد وہی شیر شکار کے لیے جنگل میں نکلا۔ ابھی شکار کی تلاش میں وہ اِدھر اُدھر پھر ہی رہا تھا کہ اچانک شکاریوں کے جال میں پھنس گیا۔ اس نے نکلنے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے، لیکن جال سے نہ نکل سکا۔ آخر پریشان اور لاچار ہو کر وہ پورے زور سے دھاڑا۔ جیسے ہی چوہے نے شیر کی دھاڑنے کی آواز سنی، وہ تیزی سے وہاں پہنچا۔ دیکھا کہ وہی شیر ہے جس نے اس کی جان بخشی تھی۔ وہ شیر کے پاس گیا اور کہا، "اے بادشاہ سلامت! میں آپ کا دوست ہوں۔ آپ نے میری جان بخشی تھی۔ آپ بالکل فکر مت کریں۔"
یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی اپنے ننّھے تیز دانتوں سے جال کاٹنے لگا اور ذرا سی دیر میں جال کاٹ کر شیر کو آزاد کرا دیا۔
جب شیر آزاد ہوا تو اس نے سوچا کہ وہ بھی اس احسان کے بدلے کوئی احسان کرے۔ یہ سوچ کر اس نے چوہے سے کہا، "اے دوست! تو نے مجھ پر احسان کیا ہے۔ جو تو مجھ سے مانگے گا، میں دوں گا۔ بول کیا مانگتا ہے؟"
چوہا یہ سن کر خوشی کے مارے پھولا نہ سمایا اور بھول گیا کہ وہ اپنے لائق کیا مانگے اور کون سی ایسی چیز مانگے کہ شیر اسے دے بھی سکے۔ اپنی حیثیت بھول کر اس نے جلدی سے کہا، "اے بادشاہ سلامت! اپنی شیرزادی کی شادی مجھ سے کر دیجیے۔"
شیر زبان دے چکا تھا۔ اس نے چوہے کی بات مان لی اور رشتہ قبول کر لیا۔
شادی کے دن نوجوان شیرزادی بن ٹھن کر نکلی اور جھومتی جھامتی اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی بے فکری سے چلنے لگی۔ دولہا چوہا اس کے استقبال کے لیے سامنے کھڑا تھا کہ بےخیالی میں اتفاق سے شیرزادی دلہن کا پاؤں دولہا چوہے پر پڑ گیا اور وہ بےچارا وہیں پِس کر ڈھیر ہو گیا۔
٭٭٭
ماہ نامہ ہمدرد نونہال، مارچ ١٩٩٥ سے لیا گیا۔

Related Posts:

  • دو خواہشیں دو خواہشیںادارہ کریمو ایک غریب مچھیرا تھا۔ وہ دن بھر ندی کے کنارے بیٹھا مچھلیاں پکڑتا اور شام کو انہیں لے جا کر شہر میں بیچ کر کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر لوٹتا۔ اس طرح غریب کریمو کے دن گزر رہے تھے۔ ایک دن کریمو ندی کے… Read More
  • ستاروں کی گنتی ستاروں کی گنتیابرار محسن فیسی لگڑبھگا غمگین تھا اور جھلّایا ہوا بھی۔ اس کا مزاج انتہائی خراب تھا۔ اسی لیے اس پر ہر وقت جھلّاہٹ سوار رہتی تھی۔ وہ جنگلی جانوروں سے بہت زیادہ ناراض رہتا تھا۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا سب اسے ناپسند… Read More
  • مچھلی سب کو ملی مچھلی سب کو ملی میم ندیم مچھیرے نے الله کا نام لے کر ندی میں جال ڈالا۔ دن بھر کے انتظار کے بعد دو بڑی سی مچھلیاں ہاتھ لگیں۔ وہ اپنا جال سمیٹ رہا تھا کہ ایک چیل تیزی سے جھپٹی اور اپنے پنجوں میں ایک مچھلی دبا کر اڑ گئی۔ مچھی… Read More
  • "ب" سے بچ کر رہنا "ب" سے بچ کر رہنا سید خرم ریاض یہ نجومی لوگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسی بات کہہ جاتے ہیں کہ اس سے دوسروں کی زندگی خراب ہوجاتی ہے۔ ہمارے گھر کے کچھ دور ایک نجومی صاحب نے ڈیرا جما رکھا تھا۔ ایک روز میں نے سوچا کہ ا… Read More
  • قازوں کا سردار قازوں کا سردارجونکو واساسے اس سال بھی قازوں کا سردار ژان سے تسو قازوں کا ایک جھنڈ لے کر اس دلدلی جگہ پر آیا۔ ژان سے تسو تو ایک قاز کا نام ہے، کیوں کہ اس کے دونوں سرمئی پروں پر ایک ایک سفید نشان ہوتا ہے، اس لیے شکاری اسے ژا… Read More

0 comments:

Post a Comment

Popular Posts

Blog Archive