Monday, February 19, 2018

کاہلی کا انجام
نیاز علی بھٹی
کسی دریا کےکنارے چھوٹا سا جوہر تھا جس میں تین مچھلیاں رہتی تھیں۔ وہ سارا دن ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گھومتیں، کھیلتیں اور خوراک حاصل کرتیں۔ان میں ایک بہت عقلمند اور ہوشیار تھی ، دوسری کم ہوشیار اور تیسری بالکل کاہل تھی، لیکن چونکہ تینوں اتفاق سے رہتی تھیں، اس لیے ان کا گزارا ہو ہی جاتا تھا جس کی خاص وجہ عقلمند مچھلی کا رویّہ تھا۔ وہ دوسری دونوں مچھلیوں
کو اچھے اچھے مشورے دیتی اور ان کی نگرانی کرتی تھی۔ جس جوہر میں وہ رہتی تھیں وہ انسانوں کی آمدورفت سے ذرا ہٹ کر تھا، مگر دریا سے ایک چھوٹی سی کھاڑی کے راستے ملا ہوا تھا۔ کبھی دریا کا پانی اس جگہ پر آ جاتا اور کبھی تینوں مچھلیاں کھاڑی کے راستے کھلے دریا میں چلی جاتیں اور پھر کچھ دیر گھوم پھر کر خوش و خرم واپس آ جاتیں۔
ایک دن دو مچھیرے ادھر آ نکلے۔ وہ سارا دن دریا میں جال ڈالے بیٹھے رہے، مگر آج ان کو زیادہ کامیابی نہ ہوئی، کیوں کہ کھلے دریا میں مچھلیوں کو مچھیروں کے جال سے بچنے کے زیادہ مواقع میسّر تھے۔ تھک ہار کر دونوں مچھیرے کچھ دیر کے لیے اپنے جال دریا کے کنارے پر چھوڑ کر سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔ اب دیکھیے اتفاق وہ ان تینوں مچھلیوں کی پناہ گاہ کی طرف ہی آ نکلے۔ تینوں مچھلیاں اپنی عادت کے مطابق اٹھکھیلیاں کر رہی تھیں۔
"ارے! وہ دیکھو مچھلیاں!" ایک مچھیرے نے دوسرے کو روکتے ہوئے کہا۔
"واقعی! یہ تو بڑی موٹی تازی ہیں۔ آؤ جلدی سے جال لے آیئں۔" دونوں مچھیرے جلدی سے اپنے جال لینے چلے گئے۔
ان دونوں مچھیروں کی گفتگو عقلمند مچھلی نے سن لی تھی۔ وہ بہت پریشان ہوئی۔ اسے خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔ لہذا اس نے فوری طور پر اپنی دونوں سہیلیوں کو خطرے سے آگاہ کیا۔ اب تو وہ دونوں بھی بہت پریشان ہوئیں۔ ان دونوں مچھلیوں نے عقلمند مچھلی کی منت و سماجت کی کہ جان بچانے کا کوئی طریقہ بتائے۔
"چلو یہاں سے دریا کی طرف بھاگ چلیں۔" عقلمند مچھلی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"مگر وہاں بھی مچھیرے ہوں گے۔" کاہل مچھلی نے کہا۔
"ہاں، یہ تو ہے، مگر کھلے دریا میں ہم زیادہ محفوظ ہوں گے۔" عقلمند مچھلی نے جواب دیا۔
"بات تو ٹھیک ہے۔" دوسری مچھلی نے ہاں میں ہاں ملائی۔
"لیکن اتنے جلدی بھی کیا ہے؟ کچھ دیر تو رک جاؤ۔ مچھیروں کو آنے میں دیر لگے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آج ادھر آئیں ہی نہیں۔" کاہل مچھلی نے کہا۔
عقلمند مچھلی نے اسے سمجھایا، "دیکھو، وقت بہت کم ہے۔ دوسرے کا ارادہ معلوم کرنے کے بجائے اپنی حفاظت کرنا ضروری ہے۔"
مگر دوسری مچھلیوں کی سمجھ میں بات نہ آئی۔ لہذا مجبور ہو کر عقلمند مچھلی کھاڑی سے ہوتی ہوئی کھلے دریا میں چلی گئی اور اس کی جان بچ گئی۔
اس کے بعد کیا ہوا۔ تھوڑی دیر بعد مچھیرے اپنا جال اٹھائے اسی طرف آئے جہاں انہوں نے مچھلیاں دیکھی تھیں۔ ان کی باتوں کی آوازیں اس مچھلی نے سنیں جو کم ہوشیار تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ عقلمند مچھلی نے صحیح کہا تھا۔ خیریت اسی میں ہے کہ شرافت سے یہاں سے نکل چلا جائے۔ چناچہ فوراً ہی اس نے کھاڑی میں چھلانگ لگائی اور اس سے پہلے کہ مچھیرے جال پھینک کر کھاڑی کا راستہ بند کرتے وہ دریا میں پہنچ گئی۔
اب سنیے تیسری اور کاہل مچھلی کا حال۔ مچھیروں نے کھاڑی پر جال پھینک کر آہستہ آہستہ کھینچنا شروع کیا۔ کاہل مچھلی اس جال میں پھنس چکی تھی۔اس نے بڑی کوشش کی کہ جال سے نکل کر کھاڑی کے راستے کھلے دریا میں چلی جائے، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ آخر وہ مچھیروں کے قبضے میں آ گئی اور یوں اپنی کاہلی اور سستی کی وجہ سے اس نے اپنی جان گنوائی۔
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، نومبر ١٩٩٠ء سے لیا گیا۔

Related Posts:

  • بادشاہ کا لباس بادشاہ کا لباس عمر حیات ایک ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یوں تو اللہ نے بادشاہ کو ہر چیز سے نواز رکھا تھا، مگر وہ بہت بےوقوف تھا۔ ایک بار پڑوس کے ملک سے دو درزی بادشاہ کے پاس آئے اور اسے بتایا کہ ہم آپ کو ایک حیرت انگ… Read More
  • شادی کا تماشا شادی کا تماشا کاشف اقبال سارا گھر رنگ برنگے قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ ہر طرف رنگین جھنڈیاں لہلہا رہی تھیں۔ خوبصورت ساڑھیوں اور سوٹوں میں ملبوس، کٹے ہوئے بالوں کے ساتھ خواتین ادھر ادھر گھوم رہی تھیں، مگر ان کے چہروں پر بارہ … Read More
  • بھول بھلکڑ بھول بھلکڑ ناصر محمود خٹک کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔ نام تھا جگنو۔ میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے۔ ننھی سی سونڈ، ننھی سی دم اور بوٹا سا قد، بڑے ہنس مکھ اور یاروں کے یار، مگر خرابی یہ تھی کہ ذرا دماغ کے ک… Read More
  • بھول بھلیّوں کی سیر بھول بھلیّوں کی سیرمعراج عادل مجھے لندن کے قابل دید مقامات کی سیر کرا چکا تھا۔ ہم ہیمپٹن کورٹ کی بھول بھلیّوں کے پاس سے کئی مرتبہ گزرے لیکن ہم نے اسے دیکھنا فضول ہی سمجھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کی داخلہ فیس بہت کم تھی یع… Read More
  • سونے کی تین ڈلیاں سونے کی تین ڈلیاں مسعود احمد برکاتی دو بھائی تھے۔ ایک امیر تھا ایک غریب تھا۔ امیر کا نام امیروف اور غریب کا نام سلیموف۔ دونوں میں بنتی نہیں تھی۔ بات یہ تھی کہ امیروف سلیموف کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک دن سلیموف کو ضرورت پڑی… Read More

0 comments:

Post a Comment

Popular Posts

Blog Archive