Monday, February 19, 2018

چوتھا کہاں گیا؟
اشرف نوشاہی
ایک دن چار دیہاتی اپنے گاؤں کے قریبی دریا پر مچھلیاں شکار کرنے گئے۔ صبح سے سہ پہر تک وہ وہاں رہے اور بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ یہ ساری مچھلیاں پہلے تو ہر ایک نے اپنے پاس ڈھیر کر لیں اور پھر ان کو بانس میں پرو کر ہر ایک نے اپنے اپنے کندھے سے لٹکا لیا اور گھر چل دیے۔ وہ بہت خوش تھے۔
ایک نے کہا، "آج کا دن تو بہت اچھا رہا۔ ہماری بیویاں اتنی ساری مچھلیاں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔"
دوسرے نے کہا، "پھر وہ خوب مزیدار مچھلیاں پکائیں گی اور ہم سب کے گھر والے مل کر کھائیں گے۔"
ان کی ان باتوں پر باقی دو نے کچھ نہیں کہا، صرف سر ہلا دیا۔ جب وہ تھوڑی دور آگے آ گئے تو اچانک ان میں سے ایک رک گیا۔ وہ کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر عجیب عجیب سی نظروں سے دوسروں کو دیکھنے لگا۔
اس کے ساتھیوں میں سے ایک نے پوچھا، "کیا ہوا؟"
اس کے منہ سے نکلا، "چوتھا کہاں گیا؟"
باقی سب نے ایک آواز ہو کر پوچھا، "کیا مطلب؟"
وہ دوسروں کو بولا "بھئی دیکھو! صبح جب ہم گھر سے آئے تھے تو چار تھے۔ اب ہم صرف تین ہیں۔ چوتھا کہاں گیا؟"
اس بات پر سب حیران ہو گئے۔ اب دوسرے نے گننا شروع کیا، "ایک، دو، تین۔"
اس نے باقی کو تو گنا خود کو بھول گیا اور بول اٹھا، "ارے واقعی چوتھا کہاں گیا؟"
اس طرح باقی دو نے بھی باری باری گنا اور چونکہ ہر کوئی خود کو نہیں گنتا تھا، اس لیے ان چاروں کو یقین آگیا کہ وہ واقعی تین رہ گئے ہیں۔ اب تو ان کی سٹی گم ہوگئی۔ وہ سوچنے لگے کہ چوتھا اگر غائب ہوا تو کیسے؟
آخر ان میں سے ایک چیخا، "ہو نہ ہو، وہ بےوقوف ابھی تک مچھلیاں پکڑ رہا ہوگا۔"
اس کی یہ بات سب کے دل کو لگی۔ وہ دریا کی طرف بھاگے، مگر دریا کے کنارے پر تو خود رو گھاس کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ ایک روہانسا ہو کر بولا، "آخر اسے ہوا کیا؟ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا؟"
ایک دور کی کوڑی لایا، "ہو سکتا ہے وہ دریا میں گر گیا ہو۔ آؤ دیکھیں ورنہ اس کی بیوی ہمارا نجانے کیا حشر کرے۔"
وہ ادھر ادھر ڈھونڈتے رہے مگر وہ نہ ملنا تھا نہ ملا، البتہ ایک مکّار اور کام چھوڑ آدمی ان کو مل گیا۔ وہ کافی دیر سے چھپ کر ان کی حرکتیں دیکھ رہا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ یہ سب بیوقوف اور گاؤدی ہیں۔ اس نے ان سے مچھلیاں ٹھگنے کی ٹھانی۔
وہ اچانک ان کے سامنے آ کر بولا، "شام بخیر دوستو! کیسے ہو؟"
ان میں سے ایک بولا، "ہم بڑی مصیبت میں ہیں۔"
وہ بناوٹ سے بولا، "ارے! کیا ہو گیا؟"
انہوں نے سب واقعہ سنایا کہ ہم چاروں دوست گھر سے شکار کو آئے تھے، مگر ہمارا چوتھا ساتھی غائب ہوگیا ہے۔ وہ دل ہی دل میں ان کی حماقت پر ہنس رہا تھا مگر اوپری دل سے ہمدردی کرتے ہوئے بولا، "ادھر ادھر دیکھا بھی ہے؟"
چاروں افسردہ ہو کر بولے، "ہاں بڑا تلاش کیا، مگر وہ مل ہی نہیں رہا۔"
"اب ہم اس کی بیوی سے کیا کہیں گے۔ وہ تو ہماری جان کو آ جائے گی۔ ہے بھی بڑی لڑاکا۔"
مکّار اور کام چور آدمی نے بڑی مصنوعی حیرت سے یہ سب باتیں سنیں۔ کچھ دیر یونہی سامنے گھورتا رہا، پھر اچانک لرزنے لگا اور گھٹنوں کے بل گر پڑا۔ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ چاروں اس کی حالت دیکھ کر اور بھی ڈر گئے۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولا، تم کہہ رہے تھے کہ تم چار تھے۔"
"ہاں ہم چار تھے۔"
"دریا پر تم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں؟"
"ہاں ہم چاروں نے مچھلیاں پکڑیں۔"
"لیکن اب صرف تین رہ گئے ہو۔" وہ بظاہر لرزتا ہوا مگر اندر سے اپنی ہنسی ضبط کرتا ہوا بولا۔
چاروں نے ایک آواز ہو کر کہا، "ہاں ہم صرف تین رہ گئے ہیں۔"
وہ آدمی بولا، "اوہ میرے الله!"
وہ چاروں لرز گئے، "کیا ہوا؟"
وہ بری طرح کانپنے لگا اور بولا، "مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"
وہ بےوقوفوں کی طرح بولے، "ڈر تو ہمیں بھی لگ رہا ہے، مگر کس بات سے یہ معلوم نہیں۔"
وہ کانپتے ہوے بولا، "میں بتاتا ہوں کہ مجھے ڈر کیوں لگ رہا ہے۔ وہ چوتھا اسی لیے غائب ہے کہ وہ تمہارا دوست تھا ہی نہیں۔"
چاروں کی حیرت اور خوف سے آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ بولے، "پھر کون تھا وہ؟"
وہ بولا، "وہ؟ وہ تو جن تھا۔ وہ جن تھا جن۔۔۔ ۔"
یہ کہہ کر وہ گاؤں کی طرف بھاگ نکلا۔
ان چاروں احمقوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر انہوں نے اپنا اپنی مچھلیاں وہیں پھینک دیں اور خود بھی یہی چیختے ہوئے بھاگ نکلے، "وہ جن تھا جن۔"
وہ ایسے بھاگے کہ مڑ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ کام چور آدمی ایک درخت کی اوٹ سے نکل کر ان کی مچھلیاں جمع کر رہا ہے۔ جب سب مچھلیاں جمع ہوگئیں تو وہ ان کو بڑے مزے سے اپنے گھر لے گیا۔
اس کے کام چور ہونے سے اس کی بیوی بڑی تنگ تھی۔ آج اس نے پہلے سے ڈنڈا تیار کر رکھا تھا کہ آتے ہی اس کام چور کی خبر لوں گی، لیکن کام چور کی قسمت اچھی تھی۔
اپنے شوہر کو دیکھ کر اس کی باچھیں کھل گئیں، کیوں کہ وہ ڈھیروں مچھلی لے کر آیا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے بولا، "صبح سے اب تک پکڑ پکڑ کر تھک گیا ہوں۔ اب تم جلدی سے ایک کو پکا ڈالو اور باقی کو سنبھال کر رکھ دو۔"
"ابھی لو۔" بیوی نے کہہ کر ڈنڈا صحن کے کونے میں پھینکا اور مچھلی پکانے بیٹھ گئی۔
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، فروری ۱۹۸۸ء سے لیا گیا۔

Related Posts:

  • چوتھا کہاں گیا؟ چوتھا کہاں گیا؟ اشرف نوشاہی ایک دن چار دیہاتی اپنے گاؤں کے قریبی دریا پر مچھلیاں شکار کرنے گئے۔ صبح سے سہ پہر تک وہ وہاں رہے اور بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ یہ ساری مچھلیاں پہلے تو ہر ایک نے اپنے پاس ڈھیر کر لیں اور پھر ان کو ب… Read More
  • مغرور شہزادی مغرور شہزادی شمشاد خان بہت عرصے پہلے کی بات ہے۔ ایک بادشاہ تھا۔ اس کی ایک خوبصورت اور اکلوتی بیٹی تھی۔ اپنی خوبصورتی اور دولت کی وجہ سے وہ بہت مغرور اور گستاخ ہوگئی تھی۔ جب بھی کہیں سے اس کے لیے شادی کا پیغام آتا وہ اسے ٹھ… Read More
  • سندباد جہازی کے حیرت انگیز سفر سندباد جہازی کے حیرت انگیز سفر احمد خاں خلیل پہلا سفر خلیفہ ہارون الرشید کا پائے تخت بغداد تھا۔ اس زمانے میں بغداد دنیا بھر کے شہروں کا شہزادہ تھا۔ اس میں عالی شان محل اور خوبصورت حویلیاں تھیں۔ اس کے بازار بڑے بڑے اور بار… Read More
  • ۸۰ دن میں دنیا کا چکر ۸۰ دن میں دنیا کا چکر علی اسد اب سے سو برس قبل نہ تو ایسے ہوائی جہاز ہوتے تھے جو چھے سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتے ہوں اور نہ ایسے پانی کے جہاز تھے جو چار روز میں بحر اوقیانوس کو پار کرلیں۔ حقیقت تو یہ ہے ان دنوں میں ہو… Read More
  • ماشا کی کہانی ماشا کی کہانیساجدہ رحمٰن ماشا ایک چھوٹی سی لڑکی تھی۔ وہ اپنے نانا اور نانی کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کا گھر جنگل کے قریب تھا۔ایک دن ماشا کے سب دوست جنگل میں بیر توڑنے جا رہے تھے۔ ماشا کا بھی جی چاہا کہ ان کے ساتھ جائے۔ اس کے نا… Read More

0 comments:

Post a Comment

Popular Posts

Blog Archive