Monday, February 19, 2018

گدھے کے کان
فاطمہ مسعود
ایک بادشاہ تھا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا۔ وہ اسی وجہ سے بہت اداس رہتا تھا۔ آخر اس نے اس سلسلے میں پریوں سے مدد مانگی۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ایک سال کے اندر اندر تمہارے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا۔
بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ پھر ایک سال کے اندر اندر بادشاہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ تینوں پریوں نے آ کر شہزادے کو
تحفے دیے۔
پہلی پری نے کہا، "تم دنیا کے سب سے خوبصورت شہزادے ہوگے۔"
دوسری پری نے کہا، "تم دنیا کے سب سے عقلمند اور نیک دل شہزادے ہوگے۔"
دل شہزادے ہوگے۔"
تیسری پری نے سوچا کہ ان پریوں نے تمنام خوبیاں شہزادے کو دے دی ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ یہ مغرور ہوجائے۔ اس نے کہا، "شہزادے! تمہارے کان گدھے کے کانوں جیسے ہوں گے۔ تاکہ تم مغرور نہ ہوجاؤ۔"
اس کے بعد تینوں پریاں غائب ہوگئیں۔ شہزادہ بہت خوبصورت، عقلمند اور نیک دل تھا، لیکن اس کے کان گدھوں جیسے تھے۔
بادشاہ نے اب تک یہ عیب لوگوں سے چھپایا تھا۔ اس نے اس ڈر سے بہت دن تک شہزادے کے بال تک نہ کٹوائے تھے۔ آخر اس نے نائی کو بلوا کر اسے محل ہی میں رکھ لیا۔
نائی پر اس راز کا بہت بوجھ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کو یہ راز بتا کر ہلکا ہوجاؤں۔
آخر ایک دن تنگ آ کر اس نے ایک فقیر کو یہ راز بتا دیا۔ فقیر نے کہا، "ایک جنگل میں جاکر ایک گڑھا کھودو اور اس گڑھے کو سب کچھ بتادو۔ اس طرح تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔"
جس جگہ نائی نے گڑھا کھودا تھا وہاں کچھ دنوں بعد ایک سرکنڈا اگ آیا۔ ایک دن ایک گڈریا وہاں سے گزرا۔ اس نے جب سرکنڈا دیکھا تو اس کو توڑ کر اس سے بانسری بنالی۔ جب اس نے بانسری بجائی تو اس میں سے یہ آواز نکلی:
"یہی کہے ہر ایک زبان
شہزادے کے گدھے کے کان"
سارے ملک میں یہ بات پھیل گئی کہ شہزادے کے کان گدھے جیسے ہیں۔ بادشاہ غصے میں آگیا۔ اس نے سوچا کہ ضرور نائی نے یہ بات بتائی ہے۔ اس نے نائی کی پھانسی کا حکم دے دیا۔
شہزادے نے جب یہ سنا تو نائی کی جان بخشی کی درخواست کرتے ہوئے کہا، "ابا جان! آپ نائی کو سچ بولنے کی سزا دے رہے ہیں۔ اللہ نے چاہا تو میں اس عیب کے ہوتے ہوئے بھی رعایا کا محبوب بادشاہ ہوں گا۔"
بادشاہ کا دل پسیج گیا۔ اس نے نائی کو معاف کردیا۔ اچانک شہزادے کے کان بالکل صحیح ہوگئے، کیوں کہ پری کو یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ شہزادہ واقعی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ نیک دل بھی ہے اور یوں سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
٭٭٭
ماہنامہ ہمدرد نونہال، اگست ۱۹۸۸ء سے لیا گیا۔ 

Related Posts:

  • مونٹی کرسٹو کا نواب مونٹی کرسٹو کا نواب مسعود احمد برکاتی جہاز کپتان کے بغیر سب سے پہلے ایک چھوٹے سے بچے کی نظر بحری جہاز "فیرون" پر پڑی۔ یہ جہاز کپڑے اور رنگ لے کر مارسیلز  سے آ رہا تھا۔ اس کو دیکھنے کے لیے ایک ہجوم سمندر کے کنارے جمع… Read More
  • انشا پارے انشا پارےادارہکچھوا اور خرگوش ایک تھا کچھوا، ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگی۔ کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں شرط لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں، ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا ک… Read More
  • ڈرپوک چڑیلیں ڈرپوک چڑیلیں اظہر علی اظہر "میرے ساتھی چار بجے کے قریب رخصت ہو گئے۔ لاش کے قریب ہی ایک اونچا درخت تھا جس پر میرے ساتھی مچان بنا گئے تھے۔ میں وہاں بیٹھ گیا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے کافی دیر انتظار کرنا پڑے گا، کیوں کہ آدم خو… Read More
  • گدھے کے کان گدھے کے کان فاطمہ مسعود ایک بادشاہ تھا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اسے بچوں سے بہت پیار تھا۔ وہ اسی وجہ سے بہت اداس رہتا تھا۔ آخر اس نے اس سلسلے میں پریوں سے مدد مانگی۔ اس نے جب پریوں کو اپنا حال سنایا تو پریوں نے کہا کہ ای… Read More
  • کہاوتوں کی کہانیاں کہاوتوں کی کہانیاں رؤف پاریکھ اونٹ کے گلے میں بلّی، دودھ کا دودھ پانی کا پانی، یہ تو ٹیڑھی کھیر ہے، اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا، اس قسم کے عجیب جملے آپ اپنے بڑے بوڑھے اور بزرگوں سے اکثر سنتے ہوں گے۔… Read More

0 comments:

Post a Comment

Popular Posts

Blog Archive